Friday 10 January 2014

ستیہ پال آنند کی.....بُودنی،نابُودنی

ستیہ پال آنند کی.....بُودنی،نابُودنی

 یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
........................................................... 

Monday 16 January 2012

ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی معصومانہ لغزش

غلام محمد قاصر کے دو اشعار اپنے نام سے سنانے  کی
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی معصومانہ لغزش


غلام محمد قاصر پاکستان ٹیلی ویژن کے مشاعرہ میں اپنی غزل سناتے ہوئے ۔
http://www.youtube.com/watch?v=V0z0eebzZ_Q

ڈاکٹر ستیہ پال آنند امریکہ کے درگا مندر میں غلام محمد قاصر کے اشعار
 اپنا کلام ظاہر کرکے سناتے ہوئے۔

غلام محمد قاصر کے اشعار پڑھنے کا قضیہ

ناصر علی سید....پشاور
بات کرکے دیکھتے ہیں

غلام محمد قاصر کے اشعار پڑھنے کا قضیہ

یادش بخیر،کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی اچھا شعر کہنے والے شاعرتواترسے مشاعروں میں ایک شعرپڑھا کرتے تھے ۔اور بہت سی داد سمیٹنے کے بعد وہ اپنی غزلیں پیش کرتے تھے ۔جب ان سے کہا جاتا کہ۔۔بھائی یہ شعر تو مبارک شاہ کا ہے(نہ جانے کون دعاؤں میں یاد۔۔۔)تو کہتے جی ہاں مگر مجھے اچھا لگتا ہے۔ کہا گیا کہ اچھا لگتا ہے تو شاعر کا نام بتا دیا کرو ۔۔جواب دیتے ضروری نہیں سمجھتا ہوں۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کوہاٹ کے یہ شاعر خود بے حد عمدہ شعر کہتے ہیں،بہت پرگو ہیں اور کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں ۔اب اگر کوئی متشاعر یہ حرکت کرے تو اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے مگر موصوف اتنے اچھے اور اتنے بہت سے شعر کہہ چکے ہیں کہ ان کا معیار کلام اور مقدار کلام بہت سوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے ۔مگر بایں ہمہ وہ مشاعرہ میں(شاید)اعتماد حاصل کرنے اور اپنے طرفدار پیدا کرنے کے لئے پہلے مبارک شاہ کا شعر پڑھنے کی عادت بد میں گرفتار ہیں۔ایک اچھے شاعر کی یہ بری حرکت(یا واردات) کی یاد مجھے یوں آئی کہ مجھے ایک ہی دن دو احباب کی طرف سے ایسی ہی ایک واردات کی خبر ملی۔سب سے پہلے تو عزیز دوست حیدر قریشی نے جرمنی سے ای میل کے ذریعے اطلاع دی جسے میں نے فور ا عماد قاصر کو فارورڈ کر دیا۔اور پھر وی آنا(آسٹریا) سے خوبصورت لہجے کے شاعر پروفیسر آفتاب حسین نے فون کر کے بتایا۔مجھے یہاں ایک بار پھر یہ خوشی احباب سے شیئر کرتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے کہ’’ادب سرائے ‘‘بیرون ملک رہنے والے پاکستانی شعراء وادباء میں بے حد مقبول ہے۔اور ہر بار ٹیلی فون اور ای میلز کے ذریعے وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔حیدر قریشی نے لکھا’’واشنگٹن امریکہ میں ہونے والے ایک کوی سیملن(مشاعرہ) میں افسانہ نگار اور نظم نگار ستیہ پال آنند نے شرکت کی اور اپنا کلام پیش کیا۔یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔

بالکل شروع میں ستیہ پال آنند نے غزل کے دو شعر سنائے۔
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
 وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام 
 مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اور ظاہر ہے یہ دونوں اشعار غلام محمد قاصر مرحوم کی مشہور اور مقبول غزل کے ہیں‘‘ کم و بیش یہی بات پروفیسر آفتاب نے بھی فون پر شیئر کی۔میں نے عماد قاصر کو حیدر قریشی کی ای میل اور لنک بھیج دیا۔جس کے جواب میں عماد قاصر نے لکھا:
’’ناصر انکل،ستیہ پال آنند جی کو والد صاحب کے اشعار پڑھتا دیکھ کر حیرت ہوئی،والد گرامی سے ان کی ملاقاتیں بھی ہیں اور خط و کتابت بھی رہی۔یہ ان کا نام لے کرپڑھتے تو خوشی ہوتی کہ انہوں نے اپنے دوست کو یاد رکھا ہوا ہے۔یہ اشعار ۱۹۹۷ میں شائع ہونے والے ان کے مجموعے کے فلیپ پر موجود ہیں جب کہ اگست ۱۹۹۶ کے پی ٹی وی کے مشاعرے کا لنک میں بھیج رہا ہوں۔جس میں ان کی اپنی آواز میں یہ غزل سنی جا سکتی ہے۔‘‘
خیر اس کے لئے تو عماد جی کسی گواہ کی ضرورت نہیں کہ یہ شعر خود ہی غلام محمد قاصر کا نام لیتے محسوس ہو رہے ہیں ۔اب اس ستم ظریفی کو دیکھئے اس کوی سیمیلن میں غزل کے شعر وہ سنا رہا ہے جس کی وجہ شہرت ہی غزل دشمنی ہے۔دیکھئے حیدر قریشی کو اس مشاعرے کی مکمل وڈیو کب ہاتھ لگتی ہے۔یہ خوش گمانی تو ہے کہ کیا خبر انہوں نے قاصر مرحوم کا نام لیا ہو اور اس لنک میں نہ ہو۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اشعار سناتے ہوئے ستیہ پال آنند کے چہرے کے جو تاثرات ہیں۔جو پھیکی پھیکی سی ہنسی ہے۔شعر ایک جھجک کے ساتھ پڑھنے کا انداز ہے اور پھر پہلا مصرعہ غلط پڑھنا ہے۔(بغیر اس کے تو آرام بھی نہیں آتا)اورداد کے جواب میں سست سا رد عمل ہے۔یہ سب تو کچھ اور کہانی سناتا ہے۔۔پھر بھی حیدر قریشی کی تحقیق کا انتظار کرتے ہیں اور اس امید کے ساتھ کہ عمران شاہد بھنڈر کو بیچ ادبی چوراہا کے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی تکلیف میں مبتلا کر نے کے بعد وہ اس محاذ پر بھی کامیاب و کامران ہوں گے۔
(مطبوعہ ادبی ایڈیشن ادب سرائے روزنامہ آج پشاور۔۳۰؍ستمبر۲۰۱۱ء)

اردو غزل کا انتقام: ستیہ پال آنند صاحب کا انجام

حیدر قریشی....جرمنی


اردو غزل کا انتقام
ستیہ پال آنند صاحب کا انجام

ستیہ پال آنند صاحب کی ایک ویڈیو ان دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔یہ امریکہ میں ہونے والے ایک کوی سمیلن کی ویڈیو ہے جس میں انہوں نے غلام محمد قاصر کے دو شعر بڑے مزے سے اپنے کلام کے طور پر سنا دئیے ہیں۔یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔


بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ستیہ پال آنند صاحب کی اس کاروائی کا ناصر علی سید صاحب نے اپنے کالم میں ذکر کرتے ہوئے غلام محمد قاصر مرحوم کے بیٹے کی ای میل درج کی اور لکھا:
’’ناصر انکل،ستیہ پال آنند جی کو والد صاحب کے اشعار پڑھتا دیکھ کر حیرت ہوئی،والد گرامی سے ان کی ملاقاتیں بھی ہیں اور خط و کتابت بھی رہی۔یہ ان کا نام لے کرپڑھتے تو خوشی ہوتی کہ انہوں نے اپنے دوست کو یاد رکھا ہوا ہے۔یہ اشعار ۱۹۹۷ میں شائع ہونے والے ان کے مجموعے کے فلیپ پر موجود ہیں جب کہ اگست ۱۹۹۶ کے پی ٹی وی کے مشاعرے کا لنک میں بھیج رہا ہوں۔جس میں ان کی اپنی آواز میں یہ غزل سنی جا سکتی ہے۔‘‘
خیر اس کے لئے تو عماد جی کسی گواہ کی ضرورت نہیں کہ یہ شعر خود ہی غلام محمد قاصر کا نام لیتے محسوس ہو رہے ہیں ۔اب اس ستم ظریفی کو دیکھئے اس کوی سیمیلن میں غزل کے شعر وہ سنا رہا ہے جس کی وجہ شہرت ہی غزل دشمنی ہے۔ (روزنامہ آج پشاور ۔30؍ستمبر2011ء کا ادبی ایڈیشن)
ستیہ پال آنند کو مذکورہ ویڈیو کا لنک بھیجتے ہوئے میں نے حقیقت حال جاننا چاہی تو ان کی طرف سے ایک وضاحت ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء کو موصول ہوئی۔وہ وضاحت آگے چل کر درج کروں گا۔پہلے یہاں ان کی وہ وضاحت درج کرتا ہوں جو انہوں نے 15؍نومبر2011ء کو ایک انٹرنیٹ فورم بزمِ قلم سے جاری کی ہے۔
From: spanand786@hotmail.com
To: bazmeqalam@googlegroups.com
Subject: {7217} Charge against me.
Date: Tue, 15 Nov 2011 17:09:05 -0500
Someone has posted a video that shows me reciting my dear old friend Ghulam Mohammad Qasir's couplets. The purpose is to show that I have recited his couplets in my own name. I want to make this matter clear.
This video has been tempered with. I was presiding over a function for the release of a Hindi book of poetry by Rakesh Khandelwal.The function was held in Durga Temple in Virginia. When I had finished my presidential speech, the audience asked me to recite from memory some couplets. They know only Hindi and but they always enjoy Urdu ghazal couplets. I am personally not much enamored of Ghazal but I keep them in good humor always. I recited some of own poems as also some ghazal couplets. But before reciting some of these couplets I said these were from an old friend from Peshawar, Mr. G.M. Qasir. It seems some one (I know it is a particular person from Germany, who is fond of such pranks) has tempered with the video. I have watched it carefully. It starts suddenly, as if just one second before, there was something and it has been cut off from the tape and my voice is heard. I remember, i had told the audience that my childhood was spent in Peshawar and I have dozens of friends there and I recited some couplets from Faraz, Mohsin Ehsan, Khatir Ghaznavi, Zahur Eiwan and Ghulam Mohammad Qasir. Alas, all of them are now no more. I have been left alone to face such silly and mischievous pranks.
Satyapal Anand
اس وضاحت پر ناصر علی سید صاحب نے فوراََ ستیہ پال آنند کو مخاطب کرکے یہ ای میل ریلیز کی :
From: nasiralisyed@hotmail.com
To: bazmeqalam@googlegroups.com
Subject: RE: {7217} Charge against me.
Date: Wed, 16 Nov 2011 12:08:15 +0500
satiya jee, salam.....i hvnt heared any shair of zahoor awan...will u plz send me some of the couplets....u recite in taqreeb.
ستیہ پال آنند صاحب نے اردو کلام سنایا تھا،اردو کے مختلف فورمز پر غلام محمد قاصر کے دو اشعار اپنے نام سے سنا دینے کا چرچا ہو رہا تھا۔اگر کسی وضاحت کی ضرورت محسوس کر لی تھی تو کیا انگریزی میں وضاحت کرنا ضروری تھا؟ ۔۔۔جبکہ آنند صاحب کے پاس اردو ای میلز لکھنے کی سہولت موجود ہے اور وہ عمومی طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے احباب سے اردو میں ہی مراسلت کرتے ہیں۔
انگریزی میں لکھے گئے ستیہ پال آنند صاحب کے اس وضاحت نامے کے مطابق:
۱۔ ’’ورجینیا کے درگامندر ‘‘میں یہ کوی سمیلن ہوا تھا۔
۲۔اس میں انہوں نے غلام محمد قاصر کا نام لے کر بتایا تھا کہ یہ اشعار ان کے ہیں۔
۳۔اس ویڈیو کو ٹیمپر کیا گیا ہے اور اس میں جرمنی کا ایک بندہ ملوث ہے۔(روئے سخن غالباََ میری طرف ہے)
۴۔میں نے حاضرین کو بتایا تھا کہ میرا بچپن پشاور میں گزرا تھاوہاں میرے درجنوں دوست تھے۔فراز،محسن احسان۔خاطر غزنوی،ظہور اعوان اور غلام محمد قاصرمیں نے ان دوستوں کے نام لے کرچند اشعار سنائے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک مندر میں ہونے والے کوی سمیلن میں ستیہ پال آنند کو اطمینان تھا کہ یہاں کوئی اردو جاننے والا نہیں ہے۔حاضرین میں دیویوں کی کثرت دیکھ کر دل نے غزل کا سہارا لیااور انہوں نے ایک معصومانہ انداز میں دوسرے کا کلام اپنے نام سے سنا دیا۔اس میں ایک تسلسل بھی موجود ہے۔’’مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘کے فوراََ بعد انہوں نے اپنا کلام شروع کر دیا’’سانپ سے خوف اب نہیں آتا‘‘۔۔۔۔غزل کی داد اسی روانی میں چلتی گئی،اچھی مشاعراتی تیکنیک ہے۔بہر حال یہ ایک معصوم سی لغزش تھی جسے اب بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن ستیہ پال آنند ایک معصوم لغزش کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔انہوں نے ہر گز ہر گز غلام محمد قاصر کا نام لے کر شعر نہیں سنائے تھے۔اس کا ثبوت ان کی ایک میل سے پیش کرتا ہوں جو انہوں نے مجھے ۲۵؍ستمبر۲۰۱۱ء کو بھیجی تھی:
’’اس کوی سمیلن میں مجھ سے کہا گیاتھاکہ اپنی نظموں کے علاوہ اردو کے مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار سنائیں۔مجھے کچھ اشعار یاد تھے وہ میں نے سنا دئیے۔شعراء کے نام نہیں واضح کیے گئے۔کیونکہ یاد نہیں تھے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔‘‘
(ستیہ پال آنند کی ای میل بنام حیدرقریشی۔۲۵ستمبر۲۰۱۱ء)
اس ای میل میں ستیہ پال آنند اعتراف کر رہے ہیں کہ شعراء کے نام یاد نہیں تھے اس لیے واضح نہیں کیے۔جبکہ اب ۱۵؍نومبر کی وضاحت میں لکھتے ہیں انہوں نے غلام محمد قاصر ہی کا نہیں فراز،محسن احسان،خاطر غزنوی،ظہور اعوان کا نام بھی لیا تھا اور ان کے اشعار بھی سنائے تھے۔بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کو بھی شاعر کے طور پر نہ صرف بیان کیا بلکہ ان کے شعر بھی سنا دئیے۔یہ ہوتی ہے ’’بیان ٹمپرنگ‘‘ اسے سفید جھوٹ کہاجاتا ہے۔
ویڈیو ٹمپرنگ کے الزام میں چونکہ ستیہ پال آنند صاحب نے مجھے گھسیٹ لیا ہے اس لیے اس کی بھی کھل کر بلکہ کھول کر وضاحت کر دوں۔
یو ٹیوب پر اسے اپ لوڈ کرنے والے کا آئی ڈی
helloanoop  
: ہے۔ان کا چینل ایڈریس یہ ہے:
ابھی تک یہاں ۲۲ ویڈیوز اپ لوڈ کی گئی ہیں۔انوپ صاحب کا پورا نام انوپ بھارگوا ہے۔یہ امریکہ میں مقیم ہیں۔۲۲ میں سے چند ویڈیوز کو چھوڑ کر زیادہ تر درگا مندر کے کوی سمیلن کی ویڈیوز ہیں۔ان میں انوپ بھارگوا صاحب خود بھی کویتائیں سنارہے ہیں۔یہ ویڈیوز آج کل میں اپ لوڈ نہیں کی گئیں بلکہ2008ء میں اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ستیہ پال آنند صاحب جس ویڈیو میں غلام محمد قاصر کے اشعار اپنے کلام کے طور پر سنا رہے ہیں اس کی اپ لوڈنگ ڈیٹ 13.10.2008 درج ہے۔چیک کی جا سکتی ہے۔اس لیے سچی بات یہ ہے کہ کوئی ویڈیو ٹمپرنگ نہیں ہوئی۔ستیہ پال آنند نے اپنی ایک معصوم لغزش کا فراخدلانہ اعتراف کر لیا ہوتا تو آج یوں مزید تماشا نہ بنتے۔انہیں جھوٹ پر جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں اور ہر جھوٹ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔اگر ستیہ جی کا ویڈیو ٹمپرنگ کاالزام سچ ثابت ہوجائے اور اس میں میرے ملوث ہونے کا ایک فی صد بھی ثبوت مل جائے تو جو ستیہ پال آنند کی سزا،وہی میری سزا۔
میرے نام اپنی ۲۵؍ستمبر۲۰۱۱ء والی ای میل میں آنند صاحب نے لکھا ہے کہ:’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔‘‘
اب انہیں کیسے یاد دلاؤں کہ انہوں نے چند غزلیں کہہ رکھی ہیں۔میرا جی کے انداز والی غزل تو وہ جرمنی والی تقریب میں بھی سنا کر گئے ہیں۔لیکن وہ اس سے صاف مکر سکتے ہیں ۔سو میں ان کے اس بیان کی تردیدبھی اسی درگا مندر کے کوی سمیلن کی ایک دوسری وڈیوسے کر دیتا ہوں۔مذکورہ کوی سمیلن ہی میں ستیہ پال آنند نے اپنی غزلیں بھی سنائی تھیں اور انہیں اس لنک پر سنا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو پرپہلے پچپن سیکنڈ کے بعد آنند صاحب کی غزلیں سنی جا سکتی ہیں۔
ستیہ پال آنند بطور نظم نگار اتنے اہم نہیں ہیں جتنا انہوں نے خود کو غزل کا مخالف ظاہر کرکے اہمیت حاصل کی ہے۔غزل کا کمال دیکھیں کہ اپنے مخالفوں کو بھی شہرت عطا کر دیتی ہے۔لیکن غزل بڑی ظالم صنف بھی ہے۔یہ کبھی کبھار اپنے مخالفوں سے انتقام بھی لیتی ہے۔غلام محمد قاصر مرحوم کے دو اشعار پڑھنے کی صورت میں ستیہ پال آنند صاحب کی معصومانہ لغزش سے لے کر وضاحت کے نام پر دلیرانہ جھوٹ پہ جھوٹ بولنا اور پھر ہر جھوٹ کا بے نقاب ہو تے چلے جانا،یہ ستیہ پال آنند صاحب سے اردو غزل کا انتقام ہے۔
فاعتبرو یا اولی الابصار!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( تحریر کردہ ۱۷؍نومبر۲۰۱۱ء )
مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی ۱۸؍نومبر۲۰۱۱ء
روزنامہ نادیہ ٹائمز۔دہلی ۱۸؍نومبر ۲۰۱۱ء

ادبی دھینگا مشتی


ڈاکٹر امجد حسین.....امریکہ

ادبی دھینگا مشتی

گزشتہ کئی مہینوں سے روزنامہ ’’ آج،، کے ادبی صفحے ادب سرائے پر ڈاکٹرستیہ پال آنند کے بارے میں ایک بحث چل رہی ہے، جس میں آنند صاحب پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مرحوم غلام محمد قاصر کے چند شعر، واشنگٹن کی ایک نجی محفل میں، اپنے نام سے پڑھے میرے پوچھنے پر آنند صاحب نے وضاحت کی کہ انہوں نے حاضرین کو کچھ شعر اپنی یاد سے سنائے تھے، ہو سکتا ہے انہوں نے ان شعرا کا نام نہیں لیا جنکے شعر انہوں نے سنائے تھے۔ جس کسوٹی پر جرمنی کے جناب حیدر قریشی صاحب اور میرے بہت ہی مہربان دوست ناصر علی سید صاحب، آنند صاحب کو پرکھ رہے ہیں اگراس کسوٹی کا اطلاق دنیا بھر کے شعرا پر کیا جائے تو مجھے یقین ہے ان میں سے اکثر فیل ہو جائینگے، میں خود اپنی تقریروں میں اورنجی محفلوں میں موقع محل کے مطابق شعر پڑھتا ہوں، اگر خیال رہے تو شاعر کا حوالہ دے دیتا ہوں اور اگر شاعر کانام یاد نہ ہو تو ذکر نہیں کرتا، غلطی سے کسی کا شعر پڑھ دینے کے گناہ کامرتکب میں بھی ہوا ہوں اور کئی بار ہوا ہوں۔
ستیہ پال آنند اردو، انگریزی، پنجابی اور ہندی ادب کے مانے ہوئے ادیب اور شاعر ہیں ان کی اردو شاعری کی درجن کے قریب کتابیں چھپ چکی ہیں اور اب اسی مہینے ان کی انگریزی شاعری کے تین مجموعے امریکہ میں شائع ہو رہے ہیں، اتنی قدامت کے شاعر کو کسی اور کا کلام اپنے نام سے منسوب کرنے کا کیا فائدہ۔
آنند صاحب پر یہ اعتراض بھی کیاگیا ہے کہ وہ پشاور سے نہیں ہیں اور پشاور کو اپنا شہر کہتے ہیں ان کا پس منظر یہ ہے کہ ان کی پیدائش مغربی پنجاب کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی، ان کے والد پنجاب سے نوشہرہ آکر آباد ہوگئے، آنند صاحب نے ہائی سکول کی تعلیم نوشہرہ میں حاصل کی، اسی مناسبت سے وہ پشاور کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتے ہیں ان کی بیگم مرحومہ پامیلا دیوی کا گھرانہ پشاور کے محلہ اندر شہر میں رہتا تھا، اس مناسبت سے بھی وہ پشاور کے ٹھہرے اسکے علاہ آنند صاحب کا نانکا بھی پشاور میں تھا اب یہ ضروری تو نہیں کہ صرف ان لوگوں کو پشاوری کہلانے کا حق حاصل ہو جن کی پیدائش فصیل والے شہر پشاور کے اندر ہوئی ہو، پشاور کے ساتھ آنند صاحب کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پچھلے سال جب میں پشاور آرہا تھا تو میں نے پوچھا کہ ان کیلئے پشاور سے کیا لے کرآؤں،
بڑی سنجیدگی سے کہا کہ میرے لئے پشاور کی ایک مٹھی خاک لے کر آنا، میں ان کے لئے پشاور کی مٹی کا تحفہ لے گیا، بہت خوش ہوئے اور اس پر انہوں نے پشاور سے اپنے قلبی تعلق پر ایک نظم لکھی، وہ نظم میں نے ان پر لکھے ہوئے ایک کالم میں نقل کی تھی، وہ پشاور کی مٹی کوخاک شفا کہتے ہیں، اب یہ زیادتی نہیں کہ غلام محمد قاصر صاحب کے شعروں کے علاوہ ان پر پشاوری نہ ہونے کا الزام بھی لگایاجارہا ہے۔
ادب سرائے میں آنند صاحب کے خلاف جو باتیں لکھی گئی تھیں، میں نے ان کا نوٹس تو لیا لیکن اس پر کچھ لکھا نہیں بلکہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار محترم ناصر علی سید سے بذریعہ ٹیلی فون کر دیا، جس کا انہوں نے اپنے حالیہ مضمون میں ذکر کیا ہے، میں سمجھا تھا بات ختم ہو چکی ہے لیکن جرمنی کے جناب حیدر قریشی صاحب اس بات کو آگے بڑھا رہے ہیں انہوں نے ہندوستان میں دلی سے شائع ہونیوالے اردو روزنامہ ’’نادیہ ٹائمز،، میں اردو غزل کا انتقام اور ستیہ پال آنند صاحب کا انجام، کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس میں پچھلی باتوں کا اعادہ کرنے کے بعد انہوں نے تان اس بات پر توڑی کہ آنند صاحب کی غزل دشمنی کا انتقام اردو غزل نے، ان پر کیچڑ اچھال کرلیا ہے(کیچڑ اچھالنے کا محاورہ میں نے استعمال کیا ہے)۔
اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ غلام محمد قاصر کے شعر ایک طرف، دراصل آنند صاحب سے بغض رکھنے والے اصحاب ان کی غزل دشمنی سے شاکی ہیں میرے نزدیک یہ مور اوور(more over) قسم کی حرکت ہے کہ ایک بات پکڑنے کے بعد اس کی آڑ میں ادھر ادھر کے باقی الزام بھی ان کے سرتھوپ دیں چاہتا ہوں کہ آنند صاحب کی اس نام نہاد غزل دشمنی کا پس منظر بھی آپکے سامنے پیش کردوں۔
آنند صاحب کا موقف ہے کہ غزل نے اردو شاعر کو قافیہ، ردیف اور گنے چنے موضوعات کے شکنجوں میں مقید کرکے اردو شاعری میں نت نئے تجربات کرنے کا راستہ بند کر رکھا ہے غزل ایک خوبصورت صنف ہے اور اردو کے عظیم شعراء نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ہمارے لئے غزل کا انمول توشہ چھوڑ گئے ہیں، لیکن ہمارے لئے ضروری نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ان شکنجوں میں قید رکھیں، شاعری میں اظہار خیال کئی صورتوں میں کیا جا سکتا ہے، دنیا کی باقی زبانوں کے شاعرانہ ادوب کئی صدیوں سے ان باقی اصناف کو سمورہے ہیں، اردو میں آزاد شاعری کی ابتداء4 1930ء4 کی دہائی میں ن م راشد اور کچھ دیر بعد علی گڑھ کے ڈاکٹر منیب الرحمن نے کی، اور اب آزاد شاعری میں کئی اصناف(Free Verse & Blank Verse) ایجاد ہو چکی ہیں اور جاپان سے امپورٹ شدہ شاعرانہ پیمانے ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی جا رہی ہے، ان اصناف کے اضافے سے اردو شاعری میں غزل کا مقام کم نہیں ہوا اپنی جگہ قا ئم و دائم ہے، بلکہ موجودہ دور کے شاعر اردو شاعری کی مختلف اصناف میں لکھتے ہیں زمانہ حال میں فیض اور فراز جیسے عظیم غزل گو شعراء4 نے بھی آزاد شاعری کی ہے اور شاعری کا حق ادا کیا ہے۔
میں یہ بات مانتا ہوں کہ ستیہ پال آنند غزل کی مخالفت میں ذرا زیادہ ہی جذباتی ہو جاتے ہیں، اس بارے میں وہ سب کچھ یا کچھ بھی نہیں(all or none) کے اصول پر پابند ہیں جو میری ناقص رائے میں مناسب نہیں ہے۔
آنند صاحب اب اسی سال کے پیٹے میں ہیں انہوں نے تمام عمر اردو ادب کی خدمت کی ہے اور کررہے ہیں ہمیں چاہئے کہ اگر ان سے نادانستہ غلطی ہو بھی گئی ہو تو اسے درگزر کر دینا چاہئے نہ کہ صرف ایک بات کو پکڑ کران کی تمام خدمات کو رد کر دیا جائے، لہٰذا مجھے روزنامہ ’’آج،،کے چند مضامین پڑھ کر دکھ ہوا ہے، یہ میری درخواست ہے کہ میرے محترم دوست اور ادب سرائے کے مہتمم ناصر علی سید صاحب اپنی دیدہ زیب اور خوبصورت سرائے میں اس قسم کی ادبی دھینگا مشتی کو بند کر دیں گے۔ 
(مطبوعہ روزنامہ آج پشاور ۲۵؍نومبر ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام محمد قاصر مرحوم کے صاحبزادے
 عماد قاصر کا خط ناصر علی سید کے نام
ڈاکٹر امجد حسین کے کالم کے حوالے سے
محترم ناصر انکل
السلام علیکم
روزنامہ آج پشاور میں جناب ڈاکٹر امجد حسین کا 25 نومبر کا کالم "ادبی دھینگا مشتی" نظر سے گزرا۔ اس حوالے سے اپنی کچھ " اوبزرویشنز " آپ سے شیئر کر رہا ہوں
پہلی بات تو یہ کہ "کسی کے شعر پڑھنا" اور "کسی کے شعر اپنے نام سے پڑھنا" دو مختلف باتیں ہیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ جناب ڈاکٹر امجد حسین خود اپنے اسی کالم میں اعتراف کر رہے ہیں کہ "ستیہ پال آنند غزل کی مخالفت میں ذرا زیادہ ہی جذباتی ہو جاتے ہیں" لہذا کیا یہ "کْھلا تضاد" نہیں کہ ایک طرف تو آنند صاحب غزل مخالفت کریں اور دوسری طرف " واہ واہ" سننے کے لیے غزل ہی کے اشعار کا انتخاب فرمائیں؟
ڈاکٹر امجد حسین کے مطابق یہ ایک "نادانستہ غلطی" تھی ، اگر واقعی ایسا ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی، حیدر قریشی صاحب نے بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اگر آنند صاحب اپنی اس لغزش کا کھلے دل سے اعتراف کر لیتے تو بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔ لیکن کیا "نادانستہ غلطی" کرنے والے بار بار بیان بدلتے ہیں ؟؟ یعنی آنند صاحب کے ایک بیان کے مطابق نہ صرف قاصر صاحب بلکہ فراز صاحب، محسن صاحب، خاطر صاحب حتی کہ ظہور اعوان صاحب کا بھی نام لے کر ان کے اشعار پڑھے گئے اور ایک دوسرے بیان میں فرمایا گیا کہ نام یاد نہیں تھے اس لیے واضح نہیں کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر امجد حسین جہاں آنند صاحب کی عمر اور ادب کے لیے ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں تو ان متضاد بیانات کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں کیا بار بار بیان بدلنا آنند صاحب کو زیب دیتا ہے؟ حیدر قریشی صاحب کے مضمون میں بھی زور غلطی سے زیادہ بار بار بیان بدلنے اور اس تضاد پر ہے کہ ایک غزل مخالف اپنے فائدے اور داد و تحسین کے لیے اسی غزل کا سہارا کیوں لیتا ہے ؟
ڈاکٹر امجد حسین ادبی دھینگا مشتی کا باعث بننے والوں کو تو کچھ نہیں کہتے لیکن آپ کو، جو صرف اپنی ادبی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے یہ باتیں لوگوں تک پہنچا رہے ہیں، روک رہے ہیں کہ سچ سامنے نہ آئے اور جو سامنے ہے اسی کو سچ مان لیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی باتیں پڑھ کر والدِ گرامی مرحوم غلام محمد قاصر کا ہی ایک شعر یاد آگیا۔
کیا کروں میں یقیں نہیں آتا
تم تو سچے ہو بات جھوٹی ہے
والسلام
عماد قاصر
Date: Tue, 29 Nov 2011 04:16:57 -0800

ڈاکٹرستیہ پال آنند کی معصومانہ لغزش اورادبی دیانتداری کا تقاضا

ڈاکٹر نذر خلیق
صدر شعبۂ اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج،اصغر مال،راولپنڈی

ڈاکٹرستیہ پال آنند کی معصومانہ لغزش اورادبی دیانتداری کا تقاضا

۲۵نومبر ۲۰۱۱ء کے روزنامہ آج پشاور میں ڈاکٹر امجد حسین کے مضمون کا پہلا جملہ پڑھ کر ہی حیران رہ گیا ہوں ۔
’’ گزشتہ کئی مہینوں سے روزنامہ ’’ آج‘‘کے ادبی صفحے ادب سرائے پر ڈاکٹرستیہ پال آنند کے بارے میں ایک بحث چل رہی ہے،‘‘
اگر یہ بے خبری کی انتہا نہیں تو بددیانتی کی انتہا ہے۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند امریکہ کے ایک کوی سمیلن میں غلام محمد قاصر کی ایک غزل کے دو شعر اپنے نام سے پڑھ رہے تھے۔ ۳۰؍ستمبر۲۰۱۱ء کے روزنامہ آج کے ادبی ایڈیشن میں ناصر علی سید صاحب کا ایک متوازن کالم اس موضوع پر شائع ہوا تھا ۔اس کے علاوہ مجھے تو اور کوئی مضمون اس حوالے سے دکھائی نہیں دیا جس میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے بارے میں کوئی بحث چلائی گئی ہو۔امجد حسین کو وہ کالم کئی مہینوں پر کیوں محیط دکھائی دے رہا ہے؟حیرانی کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی بے جا محبت میں اس نوعیت کی کئی غلط سلط باتیں لکھتے گئے ہیں۔
ایک اور مثال:’’ میں سمجھا تھا بات ختم ہو چکی ہے لیکن جرمنی کے جناب حیدر قریشی صاحب اس بات کو آگے بڑھا رہے ہیں‘‘۔
چونکہ ڈاکٹر امجدحسین کے سامنے روزنامہ آج میں چھپنے والا مضمون تھا اور اس کے بعد ’’نادیہ ٹائمز‘‘ دہلی میں شائع ہونے والا حیدر قریشی کا مضمون ان کے نوٹس میں لایا گیا (جسے انہوں نے شاید پوری طرح پڑھا نہیں)اس لیے وہ یہ گمان کر بیٹھے کہ حیدر قریشی بات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔جبکہ حیدر قریشی کے مضمون سے ہی واضح ہے کہ ناصر علی سید کے ۳۰ستمبر کے کالم کے بعد روزنامہ آج کے فورم پریہ بات ختم ہو چکی تھی۔کچھ لوگوں نے بعض انٹرنیٹ فورمز پر اس مسئلہ کو پیش کیا تو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز کی رائے دی۔ بات تب بڑھی جب ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ایک انٹرنیٹ فورم پر اپنی طرف سے انگریزی میں ایک وضاحت نامہ جاری کیا۔۱۵ نومبر ۲۰۱۱ء کو یہ وضاحت نامہ جاری ہوا ۔اس کے جواب میں حیدر قریشی کو اصل حقائق پیش کرنا پڑے جو روزنامہ نادیہ ٹائمز اور روزنامہ ہمارا مقصد دہلی میں ۱۸ نومبر ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں شامل ہوئے۔اس لئے یہ کہناادبی دیانتداری کے منافی اور جھوٹ ہے کہ بات کو حیدر قریشی نے بڑھایا،حقیقتاََ اس بات کو ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے بڑھایا اور اب ڈاکٹر امجد حسین جیسے ان کے دوست بغیر کسی دلیل کے دفاع کرکے اس بات کو مزیدبڑھا رہے ہیں۔حیدر قریشی کے جوابی مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند ۲۵ستمبر ۲۰۱۱ء کو حیدر قریشی کو ایک وضاحت بھیج چکے تھے،جسے حیدر قریشی نے پہلے کہیں بھی پیش نہیں کیا۔ان کا مقصد تماشا لگانا ہوتا تو تب ہی ان کی ای میل کو شائع کر دیتے۔گویا واقعی ناصر علی سید کے کالم کے بعد بات ختم ہوچکی تھی۔پر جب ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے اپنا انگریزی وضاحت نامہ جاری کیا تو ا س میں کئی خلافِ واقعہ باتیں د رج تھیں۔چنانچہ پھر حیدر قریشی نے ان کی ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء کی لکھی ہوئی ای میل بھی شائع کر دی جو ان کی ۱۵نومبر کی وضاحت کے بالکل برعکس تھی۔اپنے وضاحت نامہ میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے یہ خلافِ واقعہ باتیں لکھیں۔
۱۔ درگا مندر کے کوی سمیلن میں انہوں(ڈاکٹر آنند) نے غلام محمد قاصر کا نام لے کر ان کی غزل کے دو شعر سنائے تھے۔
۲۔غلام محمد قاصر کے علاوہ احمد فراز،محسن احسان،خاطر غزنوی اور ڈاکٹر ظہوراحمد اعوان کے اشعار بھی ان کے نام لے کر سنائے تھے۔(جبکہ ڈاکٹر ظہوراحمد اعوان نے کبھی شعر نہیں کہے)
۳۔کلام سناتے ہوئے میری جو ویڈیو پیش کی جا رہی ہے اس میں ٹمپرنگ کی گئی ہے۔
ان باتوں کے بر عکس ۲۵ستمبر کو حیدر قریشی کے نام بھیجی گئی اپنی ای میل میں ستیہ پال آنند نے یہ لکھا تھا۔
’’اس کوی سمیلن میں مجھ سے کہا گیاتھاکہ اپنی نظموں کے علاوہ اردو کے مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار سنائیں ۔ مجھے کچھ اشعار یاد تھے وہ میں نے سنا دئیے۔شعراء کے نام نہیں واضح کیے گئے۔کیونکہ یاد نہیں تھے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔‘‘
حیدر قریشی نے اپنے مضمون’’اردو غزل کا انتقام:ستیہ پال آنند صاحب کا انجام‘‘میں اس حوالے سے سارے حقائق کو کھول کر بیان کر دیا ہے،ویڈیو ٹیمپرنگ کے الزام کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔یہاں ان ساری باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر امجد حسین یہ سارے حقائق جاننے کے باوجود تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی بار بار کی غلط بیانیوں کو ہیرا پھیری کہنا چاہیے تھا ، حیدر قریشی نے اسے ’’معصومانہ لغزش‘‘لکھا ہے اس کے باوجود ڈاکٹر امجد حسین نے نہ صرف ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا بے جا دفاع کیا ہے بلکہ ٹھوس شواہد اور واضح حقائق کا منہ بھی چڑایا ہے۔ان کا طرزِ عمل ادبی دیانتداری کے منافی ہے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی ادبی خدمات کا مسئلہ یہاں زیربحث ہی نہیں ہے۔ان سے جو کچھ سرزد ہوا اسے بھی محض ایک’’ معصومانہ لغزش‘‘ قرار دیا گیا ہے۔اس کے بعد اگر تماشا لگ رہا ہے تو ان کی اپنی بے جا دفاعی کاوشوں کی وجہ سے لگ رہا ہے ڈاکٹر امجد حسین جیسے احباب ان کا اس طرح دفاع کرتے رہے تو ان کا اسی طرح تماشا لگا رہے گا ۔
جہاں تک پشاور کی مٹی کی بات ہے،یہ اہلِ پشاور اور ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا آپس کا معاملہ ہے۔ایک زمانہ میں پشاور میں ڈھیلے سے استنجا کا تصور عقیدے کی حد تک اہم تھا۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند اسے خاکِ شفا کہتے ہیں تو راج کپور فیملی (پشاور کی مٹی)اور ہر چرن چاولہ(میانوالی کی مٹی) کی طرح ان کی پشاور کی مٹی سے محبت کا ثبوت ہے۔خدا انہیں پشاور کی خاکِ شفا سے مزید شفا عطا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ روزنامہ نادیہ ٹائمز۔دہلی ۳۰؍نومبر ۲۰۱۱ء

Satyapal Anands Column and its Reply


Never insist on proving your point
BY PROF SATYAPAL ANAN

Never insisit on proving your point
BY PROF SATYAPAL ANAND


I used to brag about myself a lot. Whenever, in a meeting or a social gathering, some people gathered around me and I was expected to give my opinion about a matter, I would always begin with my ‘shining’ autobiographical details. Gradually (and painfully) I learnt that this was the surest way of alienating people. Jo zarra jis jagah hai, wahin aaftab hai, says the Urdu proverb. A dust particle,wherever it is, is in itself a sun.
So I reached the conclusion that humility and inner peace go hand in hand. The less compelled one is to try to prove oneself to others, the easier it is to feel peaceful inside. It is a dangerous trap to prove your point. It
takes an enormous amount of energy to be continually pointing out your accomplishments, bragging, or trying
to convince others of your worth. Bragging actually dilutes the positive feelings you receive from an accomplishment or something you are proud of. To make matters worse, the more you try to prove your point, the more others will avoid you, talk behind your back about your insecure need to brag, and perhaps even resent you.
This resentment about my renown (or whatever you might call it!) in the world of Urdu letters has recently
prompted a group of ruffians known for their mean tactics to defame celebrities.
One of them took a video openly placed on YouTube for people to enjoy my poetry reading,
tempered with it to cut out portions and then displayed only those parts in which I am shown reciting a few couplets.
These Urdu couplets were from my old dear friend (now departed) Ghulam Mohammad Qasir from Peshawar.I was charged openly in an article published in a single-sheet Urdu newspaper for reciting these couplets as my own. Firstly I laughed the matter away. But then someone who edits the literary gup-shup page in AAJ, Peshawar followed with the same charge and put it on the internet. The dear-departed
friend Qasir was a part of the large group that included Khatir Ghaznavi, Arbab Yusuf Rija Chishti, Faraz, Mohsin Ehsan,Zahur Ewan, (all are no more alive), and some of us in the Western world like Dr. Amjad
Husain, Irshad Siddiqui, Atteeq Sahib, Yunus Sabir, and a couple of others.What do I do with these
“Adabi Dehshat-gard” people? Just forgive them because they would be quiet after they have done with their charges – or may continue with it for a while more. Imagine some one like me who has a sixty-year long literary career, 40 published books in four languages, a university professor,“stealing” someone’s two Urdu couplets and presenting on the stage without saying whose couplets they were – and then being charged that he has read them as his own! Laugh you may, but there is a serious side to it also. I gradually discovered
that people are drawn to those with a quiet, inner confidence, people who don’t need to make themselves look good, be “right” all the time, or steal the glory.
Most people love a person who doesn’t need to brag, a person who shares from his or her heart not from his or her ego. Years ago, while flying from London to Delhi I had a seat to share with an elderly couple who were conversing in chaste Urdu.
Since they were busy in themselves,I sat quietly and then took out an Urdu magazine from my handbag and started reading it. After some time, I felt their inquisitive eyes focused on me.
Then the husband politely asked me, “Do you know Urdu, sir?” I smiled and said, “Well, I do….I love Urdu.”
The conversation rested at that point and I kept on reading the journal till I came to a page where one of my poems was published with my photograph and my name. I was about to turn the page when I found the
man’s hand on my hand. “Don’t turn the page, Doctor Anand, Let me read your poem.”
I gave the magazine to him. He said almost reverently, “I knew all the time that I had seen you some where….and then when I saw your picture I discovered that I had never seen you in person, but only in
pictures…I mean your pictures in Urdu magazines.”Slow learner that I am, let me confess that all my life I have been a bragger, and it was only a few years back that I learnt the art of good judgment and humility. So, O my readers,
take a cue from my mistakes and never insist on proving a point in a social group. Try humility.
(Canadian Asian News,December 15-31, 2011 Page 24)
.....................................................................................
Special NOTE by the Blogger
comments about the column

SPECIAL NOTE BY THE BLOGGER
comments about the column


"The matter was very simple that Satyapal Anand had recited two famous couplets from Mr. Ghulam Muhammad Qasir’s ghazal in a literary recitation gathering (mushaira / Kavi samelan) in Durga Temple in Washington. The video was recorded by the organizers/administrators of that very Kavi Samelan.
Those couplets were not only included in Qasir’s poetry collection “Darya-e-Gumaan’s flap” published in 1997 but Mr. Qasir had recited them in a PTV Mushaira in 1996. Its video is available on You tube.  
When this incident was brought in to Mr. Anand’s notice that whether or not he recited those couplets by quoting Mr. Qasir’s name; then surprisingly enough Mr. Anand came up with two different answers. On a literary forum he commented that he had recited couplets of many poets from Peshawar by formally quoting their names including Mr. Qasir; he further said that the video had been tempered.  On the other hand he wrote an email to Mr. Haider Qureshi clearly admitting that he had not mentioned the poets’ names as he did not remember then. By giving these two contradictory statements about the same incident it becomes evident that Mr. Anand had done this (not mentioning the name of the poet) intentionally  to receive more appreciation /admiration from the audience in the literary gathering.
Mr. Anand’s allegation of “video tempering” is ridiculous as the video was shot and uploaded on You Tube by the organizers / management of Durga Temple in Washington themselves.
It could be Mr. Anand’s ethics and etiquettes to call that person a “Terrorist” who has shown him (Mr. Anand) the mirror.  In fact Mr. Anand has no answer because he has been caught red-handedly. It is said that a picture is worth a thousand words, so a video should be worth a million words, so one may refer to the video wherein Mr. Anand’s theft has been proved and requires no further proof"

............................................

GHULAM MOHAMMAD QASIR is Reciting his ghazal in a PTV MUSHAIRA.
http://www.youtube.com/watch?v=V0z0eebzZ_Q

DR. SATYA PAL ANAND is reciting the same
two famous couplets from Mr. Ghulam Muhammad Qasir’s ghazal
in DURGA MANDIR KAVI SAMMELAN USA.